ملائیشیا کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے میانمرمیں مسلمانوں پر جبر برداشت نہیں، انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نسلی اور مذہبی لڑائی میانمر کو ایک ’’بہت ہی بری سمت‘‘ کی طرف لے جائے گی۔
انھوں نے فوجی جنتا کی طر ف سے حال ہی میں ’’جرات مندانہ عمل‘‘ کی تعریف بھی کی لیکن ساتھ ہی انھوں نے خبردار بھی کیا کہ مدت بعد میانمر میں لائی گئی جمہوریت کو مسلم آبادی پر’’تشدد ‘‘ سے خطرات ہونگے، میانمر مسلمانوں کودباکرکبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، کوالالمپور کے ٹائون ہال میں ینگ لیڈرز فرام سائوتھ ایشیا ان ملائیشیا کے طلبا سے ملاقات میں امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کے مسائل اور اندرونی سیاسی اختلافات ابھرتے ہوئے ایشیا سے امریکا کی توجہ نہیں ہٹا سکتے۔
ایشیا پیسفک(امریکا، ایشیا اور آسٹریلیا) کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو واشنگٹن نظر اندازکرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، یہ تمام دنیا میں امریکیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو خوشی سے قبول کریں اور یہ بعض اوقات ہمارے ہی سیاسی نظام ہوتے ہیں جو ہمیں
جس سے ہم وسیع تر نظریات کو کمزور نظر سے دیکھتے ہیں لیکن ہم اب تعلقات کو متوازن کرنے کیلیے دنیا کے اس حصے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کی انتظامیہ ایشیائی اقوام سے مضبوط معاشی، دفاعی اور دیگر دوستانہ مراسم پر توجہ دے رہی ہے اور خاص طور پر ان سے جو جنوب مشرقی ایشیا سے ہیں، بعد ازاں طلبا سے سوال و جواب کا سلسلہ بھی رہا۔
قبل ازیں ملائیشیائی بادشاہ عبد الحلیم معظم کیساتھ ایک عشایے میں صدر اوباما نے کہا امریکا اورملائیشیا شراکت داری کا ایک نیا دورشروع کرنے کو ہیں، انھوں نے وزیراعظم نجیب رزاق سے بھی ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور ملائیشیاکے عقائد ایک ہی ہیں، انھوں نے اپنی تقریرمیںکچھ مالے زبان کے الفاظ بھی استعمال کیے، انھوںنے کہا’’ہم سب ایک ہی بنیادی انسانی امنگوںکے مالک ہیںکہ وقار،امن کیساتھ رہنا،اپنی قسمت کا حال خودتیارکرنا، روزگار ہونا، اپنے گھر والوں کوٹھیک سے رکھ سکنااورسب سے زیادہ یہ کہ آئندہ نسل کواپنے سے کچھ بہتردیکرجائیں‘‘۔ اوبامانے اتوارکو ہی ملائیشیاکی قومی مسجدکادورہ بھی کیاجہاں انھوں نے روایت کے مطابق جوتے اتارے اورمسجدکے اندرگئے۔